DCR 8 - عدلیہ کے لیے بڑا چیلنج

Posted by Muhammad Musa Soomro Tuesday, September 8, 2009

عدلیہ کے لیے بڑا چیلنج

آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان نے 1996 میں سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف درخواست دائر کی تھی

پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز کے دن عدلیہ کو سب سے بڑا چیلنج مختلف عدالتوں کے سامنے زیرالتوا لاکھوں مقدمات نمٹانا ہے جن میں بعض سیاسی اہمیت اور متنازعہ نوعیت کے مقدمات بھی شامل ہیں۔

خود پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ حقیقیت تسلیم کی ہے کہ مارچ دو ہزار سات سے لے کر عدلیہ کی بحالی تک ہزاروں مقدمات زیر التواء رکھے گئے جس کی وجہ سے عوام کو انصاف کی فراہمی کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔

اس وقت ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا مقدمات کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد بنتی ہے جن میں اسلام آباد میں ساڑھے گیارہ ہزار مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ کوئٹہ میں ایسے مقدمات کی تعداد اڑھائی سو ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے سامنے چوراسی ہزار، سندھ ہائی کورٹ کے سامنے ساڑھے اٹھارہ ہزار، پشاور ہائی کورٹ کے سامنے دس ہزار اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے چار ہزار سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں۔

سیاسی مقدمات کا تعلق تو سیاستدانوں یا امیر طبقے سے ہے لیکن غریب اور عام آدمی کا مسئلہ اسے درست اور فوری انصاف ملنا ہے۔ اگر عوام کو یہ سہولت نہیں ملتی تو آزاد عدلیہ عوام کی لیے بے معنی ہے

آئینی ماہر فروغ نسیم

ماتحت عدلیہ، جو پاکستان میں انصاف کے حصول کا پہلا دروازہ تصور کیا جاتا ہے، وہاں زیرالتوا مقدمات کی تعداد خاصی ہوشربا ہے۔ پنجاب میں ماتحت عدلیہ کے سامنے زیرالتوا مقدمات کی تعداد بارہ لاکھ، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ، صوبہ سرحد میں پونے دو لاکھ اور بلوچستان کی ماتحت عدلیہ کے سامنے زیرالتوا مقدمات کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد ہے۔

ان مقدمات میں بعض ایسے سیاسی مقدمات بھی شامل ہیں جن پر جلد از جلد فیصلہ کرنے کے لیے عدالت پر دباؤ بڑھ رہا ہے بلکہ بعض ماہرین کے مطابق ان مقدمات کی سماعت کرنا اعلٰی عدلیہ کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔

زیر التوا مقدمات میں سیاسی اہمیت کے اعتبار سے سر فہرست قومی مصالحت آرڈیننس (این آر او) کے خلاف دائر درخواستیں ہیں جو کئی ماہ سے زیر سماعت آنے کی منتظر ہیں۔ عدالت عظمٰی کے دو رکنی بینچ نے این آر او کے ذریعے ریلیف دیے جانے کے خلاف متعدد درخواستوں کو یکجا کر کے بڑے بینچ کے سامنے پیش کرنے کے حکم کے ساتھ سماعت ملتوی کر رکھی ہے۔

این آر او کے خلاف براہ راست درخواستیں مبشر حسن اور روئیداد خان کی جانب سے دائر کی گئی ہیں جبکہ ایسے متعدد مقدمات بھی اسی بِنا پر زیر التوا ہیں جن میں بعض مدعا علیہان نے این آر او کے تحت بعض شخصیات کو ریلیف دیے جانے کو چیلنج کر رکھا ہے۔

’عدالتی نظام پر بحال ہوتے اعتماد کے باعث نئے مقدمات کی تعداد میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے‘ چیف جسٹس

واضح رہے کہ این آر او کے تحت بدعنوانی اور بعض دیگر سنگین مقدمات سے نجات پانے والوں میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے علاوہ حکمران جماعت کے علاوہ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں رہنما شامل ہیں جن میں سے متعدد سرکاری عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔

سپریم کورٹ کے سامنے جو دوسرا اہم مقدمہ زیرالتوا ہے وہ جبراً گمشدہ یا لاپتہ ہو جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے لیے گئے از خود نوٹس پر مبنی ہے۔ نو سو کے قریب ان گمشدہ افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں ہیں۔

مارچ دو ہزار سات میں اپنی پہلی اور نومبر میں دوسری برطرفی کے وقت چیف جسٹس اس مقدمے کی سماعت کر رہے تھے اور اس دوران درجنوں افراد کو عدالت کی مداخلت پر رہائی بھی ملی تھی۔ ان میں سے بعض فوج اور خفیہ اداروں کی تحویل سے بھی برآمد ہوئے تھے۔

اسی بناء پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جسٹس افتخار کی اپنے عہدے سے علیحدگی کے محرکات میں اس مقدمے کی سماعت کرنا اور اس دوران انٹیلی جنس اداروں کے افسران کی بھری عدالت میں سرزنش کرنا بھی شامل تھا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی سے وابستہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ ’ہمارا خیال تھا کہ جسٹس افتخار بحال ہونے کے بعد سب سے پہلے ہمارا مقدمہ سنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں ابھی زمین جائیداد کے مقدمات سنے جارہے ہیں لیکن ہمارے مقدمے کا نمبر نہیں آ رہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔‘

ہمارا خیال تھا کہ جسٹس افتخار بحال ہونے کے بعد سب سے پہلے ہمارا مقدمہ سنیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں ابھی زمین جائیداد کے مقدمات سنے جارہے ہیں لیکن ہمارے مقدمے کا نمبر نہیں آ رہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو گا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ

ایک اور سیاسی نوعیت کا مقدمہ ہے تو تیرہ سال پرانا لیکن گزشتہ چند روز میں اس کی سیاسی اہمیت ایک بار پھر دوبالا ہوگئی ہے وہ آئی ایس آئی کی جانب سے انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ہے۔

پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان نے انیس سو چھیانوے میں سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس خفیہ ادارے نے پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے مختلف سیاستدانوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے اور پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد کرنے کے لیے کروڑوں روپے بطور رشوت دیے۔

اصغر خان نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سمیت سابقہ تین چیف جسٹس صاحبان کو انہوں نے اپنے اپنے دور میں خط لکھے کہ اس اہم مقدمے کی سماعت کی جائے۔

آئینی ماہر فروغ نسیم کا تاہم کہنا ہے کہ عدلیہ کے لیے سیاسی نوعیت کے مقدمات سے زیادہ مشکل کام اعلٰی اور بالخصوص ضلعی عدالتوں میں زیرالتوا لاکھوں مقدمات کا سننا اور ان پر فیصلہ دینا ہوگا۔ ’سیاسی مقدمات کا تعلق تو سیاستدانوں یا امیر طبقے سے ہے لیکن غریب اور عام آدمی کا مسئلہ اسے درست اور فوری انصاف ملنا ہے۔ اگر عوام کو یہ سہولت نہیں ملتی تو آزاد عدلیہ عوام کی لیے بے معنی ہے۔‘

زیرالتوا مقدمات کی فوری سماعت کی اہمیت کے پیش نظر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی زیرسربراہی حال ہی میں تشکیل پانے والی قومی عدالتی پالیسی میں یہ مقدمات آئندہ چھ ماہ میں نمٹانے کا اعلان کیاگیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت اس سال سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے موسم گرما کی تعطیلات میں بھی کام کیا اور اس دوران پانچ ہزار مقدمات نمٹائے۔ اس کے باوجود زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے مطابق نئے مقدمات کے اندراج میں اضافہ ہے۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ اعلٰی عدلیہ کے قواعد اور روایات کے پیش نظر انگریز دور سے جاری اعلٰی عدلیہ میں موسم گرما کی تعطیلات کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے ساتھی جج صاحبان نے چھٹی کے باوجود کام کرکے نئی روایت قائم کی ہے۔

پیر کے روز نئے عدالتی سال کے شروع ہونے پر اپنے بیان میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ’اعلیٰ عدلیہ کے سامنے عرصے سے زیرالتوا پڑے مقدمات نمٹانے کے لیے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ عوام کے عدالتی نظام پر بحال ہوتے اعتماد کے باعث نئے مقدمات کی تعداد میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف عدلیہ ہی سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔‘

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post