Updated at: Friday,04 September 2009
کیا شوگر مافیا حکومت اور قانو ن سے زیادہ طاقتور ہے؟
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف اور جسٹس اعجاز احمد چودھری پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پنجاب میں چینی کا نرخ 40 روپے فی کلو گرام مقرر کر دیا ہے اور حکومت پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبہ بھر میں چینی کی 40 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کو یقینی بنائے۔ عدالت نے چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے اور اس کے بحران کے خلاف ازخود کیس نمٹاتے ہوئے اپنا مختصر حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں کہا ہے کہ 40 روپے فی کلو چینی فروخت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سستے بازاروں ' اتوار بازاروں اور رمضان بازاروں میں فروخت کی جائے۔ 40 روپے کلو چینی پورے صوبہ کی تمام مارکیٹوں میں دستیاب ہونی چاہئے۔ عدالت نے پنجاب حکومت سے کہا کہ وہ ذخیرہ کی گئی چینی کی برآمدگی میں آزاد ہے۔ دو رکنی بنچ نے کہا کہ حکومت شوگر ملوں سے چینی 30 روپے کلو کے حساب سے خریدے۔ دوسری جانب شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ان کا موقف نہیں سنا گیا اس لئے وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے شوگر ملیں بند ہوسکتی ہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے شاہد کریم ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح عدالت اپنے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے شوگر ملز مالکان کو مہلت دے دے لیکن عدالت نے مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کا جلد سے جلد فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ عدالت چاہتی ہے کہ عوام کو فائدہ ملے اور انہیں مناسب قیمت پر چینی مل سکے۔ ایسوسی ایشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بحران میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کا کردار اہم ہے۔ کارپوریشن کے پاس سات لاکھ میٹرک ٹن کا سٹاک موجود ہونا چاہئے تھا تاکہ چینی امپورٹ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی مگر کارپوریشن نے سٹاک رکھا ہی نہیں اور اس کی غفلت کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ سال گنے کی پیداوار خرید کم ہوگی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ لوگ کاشتکاروں کو پیسے ہی نہیں دیتے تو وہ گنا کیوں کاشت کریں؟ آج بحران کی 80 فیصد ذمہ داری شوگر ملوں پر عائد ہوتی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے بااثر مافیا پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بااثر مافیا نے بحران پیدا کرکے 25 ارب سے زائد خالص منافع کمایا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں بے تحاشا چینی موجود ہے لیکن اس کے باوجود عوام کو لمبی قطاروں میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کرپشن میں ملوث ٹیکس حکام کے خلاف ڈنڈا استعمال کرنا پڑا تو گریز نہیں کیا جائے گا۔
ہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ عدالت عالیہ کو چینی کے نرخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں لیکن وزیر قانون بتائیں کہ جس ملک میں حکومتیں عوام کو مافیاز کے چنگل سے نجات دلانے میں ناکام ہو جائیں ' بڑے بڑے شوگر ملز مالکان پر اس لئے ہاتھ نہ ڈالا جاسکے کہ کسی کا تعلق حکومت سے ہے تو کسی کا اپوزیشن سے اس ملک میں عدالتیں عوام کے ساتھ کھڑی ہونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بالکل درست کہتے ہیں کہ شوگر ملز مافیا بہت طاقتور ہے یہ شوگر ملز مافیا کیا صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ کیا یہ شوگر ملز مافیا پنجاب کے سخت گیر وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ اور اگر ہے تو صدر ' وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے عہدوں سے چمٹے رہنے کا کیا حق ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ مافیا حکومت کے کنٹرول میں نہیں آتا اور حکومت اس کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے تو پھر فوری طور پر تمام شوگر ملیں بند کرکے چینی امپورٹ کی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ امپورٹ شدہ چینی عوام کو سستی پڑے گی۔
شوگر ملز مافیا کی طاقت کا ہمیں اس وقت احساس ہوگیا تھا جب پنجاب میں شوگر ملوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے کے بعد لاکھوں بوری شوگر برآمدکی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کے بجائے باعزت طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمیں محسوس ہوا تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ورنہ اتنے بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اتنی آسانی سے کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ ہماری رائے میں وفاقی حکومت بھی بے بس ہے اور صوبائی حکومت میں بھی دم نہیں اس لئے ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی اس معاملے کا نوٹس لے اور چھان بین کرائے۔
جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے مشرف کے زمانے میں جب شوگر بحران پیدا ہوا تھا تو اس وقت چھان بین کی ذمہ داری نیب کو سوپنی گئی تھی نیب نے چینی مافیا کا پتہ چلالیا تھا لیکن پھر اچانک اس کی رپورٹ کو دبالیا گیا۔ عدالت عظمیٰ ایک تو وہ رپورٹ نکلوا کر اخبارات میں چھپوائے اور اس رپورٹ کو بنیاد بناکر مافیا کو پکڑے۔ اگر یہ لوگ پکڑے نہ گئے اور ان کے خلاف کیس پوری قوت سے حکومت میں نہ آیا تو پھر اس ملک کے عوام کا ناطقہ بند کرنے کے لئے کبھی آٹا مافیا آٹے کا بحران پیدا کرے گا اور کبھی گھی مافیا گھی کا بحران پیدا کرکے اربوں روپے کمائے گا۔ اگر حکومت اور عدالتیں جمہوریت میں بھی بے بس ہیں تو پھر عوام کی اس سوچ پر کون پہرے بٹھائے گا کہ اس جمہوری عوامی حکومت سے تو آمریت بہتر ہے۔ حکمران جمہوریت پر رحم کریں اور رشتہ داری ' تعلق داری سے باہر نکل کر مجرموں کو ان کے کیے کی سزا بھگتنے یں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوامی سیلاب سڑکوں پر آجائے اور حکومت سے سنبھالا نہ جائے۔

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post