Daily Corruption Report 2

Posted by Muhammad Musa Soomro Wednesday, September 2, 2009

BBCURD

Wednesday, 2 september, 2009, 17:29 GMT 22:29 PST

پاکستانی وزارتِ خارجہ: طفیلی ادارہ!

بیورو رپورٹ

اسلام آباد

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نہ صرف بھارت سےبہتر تعلقات بلکہ افغان صورتحال سے بھی پاکستان کو مرحلہ وار الگ کرنے کے خواہش مند تھے۔

آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ پالیسی ساز ادارہ نہیں بلکہ دی گئی پالیسی پر عمل درآمد کرنے والا ادارہ ہے۔ ان کے بقول پاکستان چونکہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے اس لیے دفترِ خارجہ کو پالیسی ساز خطوط بڑی حد تک فوج کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں۔ دفترِ خارجہ کے سفارت کار فراہم کردہ پالیسی پر عمل درآمد کا ذیلی کردار ہی ادا کرسکتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی سفارتخانے دراصل وہ شے فروخت کرنے والے پرچون کاؤنٹر ہیں جسے بنانے میں ان کا یا تو نہایت معمولی کردار ہے یا بالکل نہیں ہے۔ جنرل درانی نے یہ بات اخبار ڈان کے مطابق اسلام آباد میں خارجہ پالیسی کے موضوع پر ہونے والی ایک ورکشاپ میں اپنے مقالے میں کہی۔

روس میں پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دفترِ خارجہ کو پالیسی بنانے کی آزادی کبھی بھی میسر نہیں رہی اور فوج کو ہمیشہ خارجہ اور دفاع کی پالیسی میں بالادستی رہی ہے۔ ایک آمرانہ فضا میں حکمران دفترِ خارجہ سے پیشگی صلاح مشورے کے بغیر فیصلے کرنے کے عادی رہے ہیں اس لیے پالیسی منصوبہ بندی کا تصور پنپ نہیں سکا۔

سابق سکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے مذکورہ مقررین کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بہت مرتبہ منتخب نمائندوں سے بالا بالا ایسے ناقص فیصلے کیے گئے جو بروقت نہیں تھے۔ لہذا ان میں یا تو تبدیلی کرنی پڑی یا پھران فیصلوں کو یکسر واپس لینا پڑا۔ یہ فیصلہ تاریخ ہی کرسکتی ہے کہ ہم نے یہ پالیسیاں کیوں اور کیسے اپنائیں۔

سابق سرکردہ سفارتکار طارق فاطمی نے کہا کہ ضیا دور میں غیرملکی سفارتکار مزے لے لے کر بتاتے تھے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ میں وزارتِ دفاع سے زیادہ فوجی افسر نظر آتے ہیں۔ طارق فاطمی کے بقول افغانستان اور بھارت سے متعلق ہمیشہ دو خارجہ پالیسیاں متوازی انداز میں چلائی گئیں۔ ایک پالیسی دفترِ خارجہ چلاتا تھا اور دوسری پالیسی انٹیلی جنس ایجنسیاں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نہ صرف بھارت سےبہتر تعلقات چاہتے تھے بلکہ افغان صورتحال سے بھی پاکستان کو مرحلہ وار الگ کرنے کے خواہش مند تھے لیکن دونوں رہنماؤں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایسا نہیں کرنے دیا۔

سابق سکریٹری خارجہ تنویر احمد خان نے اپنے مقالے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ انیس سو اڑتالیس میں راولپنڈی میں سینئر افسروں کے ایک گروپ نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو آمادہ کرلیا کہ وہ سوویت یونین نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد لیاقت علی خان امریکہ چلے گئے۔ تنویر احمد خان کے بقول یہ گروپ اس رحجان کا آغاز تھا جسے آج کل ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔

خارجہ پالیسی پر یہ اور دیگر ماہرین کے مقالے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر مونس احمر نے ’ فارن پالیسی میکنگ پروسس۔ آ کیس سٹڈی آف پاکستان‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کردیے ہیں۔ ڈاکٹر مونس نے کتاب کے تعارف میں بتایا کہ کس طرح فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیاں فارن پالیسی کی تشکیل میں دفترِ خارجہ، پارلیمنٹ، رائے عامہ اور سول سوسائٹی کے کردار پر اثرانداز ہوتی آئی ہیں۔ حالانکہ ان سویلین اداروں کی رائے اگر خارجہ پالیسی میں منعکس ہو تو اس کے سبب بیرونی دنیا سے پاکستان کے تعلقات صحت مند خطوط پر استوار رہ سکتے ہیں۔

Nawa-i-waqt

جنرل (ر) عبدالقیوم

پاکستان سٹیل ملز اورPOF

…(۱)

منیر احمد جوندہ (سرگودھا)........
وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان سٹیل ملز کے موجودہ چیئرمین آفتاب معین شیخ کو کرپشن چارجز کے تحت برطرف کرکے ایف آئی اے کی ایک ٹیم کو تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔ نئے چیئرمین کی تقرری تک رسول بخش پھلپھوٹو کو عارضی چارج دیا گیا ہے۔
برطرف چیئرمین پر میجر الزام یہ ہے کہ انہوں نے چینی کمپنی Metallurgical corporation of china mcc سے سٹیل ملز کی موجودہ production capacity ایک ملین ٹن سالانہ سے پانچ ملین ٹن سالانہ بڑھانے کے جس 22ارب روپے کا سمجھوتہ کیا تھا اس میں کرپشن کی گئی ہے اور واضح ثبوت یہ ہے کہ نہ تو کوئی اشتہار دیا گیا ہے اور نہ ہی بولی لگی ہے گوکہ اپنی ابتدا کے بعد سے ہی یہ ادارہ کرپشن پولرائزیشن سیاسی مداخلت اور مس میجمنٹ کا شکار رہا ہے اور آج محض چار سال کے مختصر عرصے کے بعد یہ دوبارہ 20ارب روپے خسارے میں جارہا ہے حالانکہ 2005-6 میں جب لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم اس کے چیئرمین تھے اور انہوں نے نجکاری کیخلاف جب احتجاجاً استعفیٰ دیدیا تھا تو اس وقت 18ارب روپے منافع میں سے 6 ارب روپے ٹیکس ادائیگی کے بعد اس ادارے کا خالص منافع بارہ ارب روپے تھا اس کے علاوہ سٹور میں چھ ارب روپے کا خام مال چار ارب روپے کا تیار مال اور دو ارب روپے کے سپیئرپارٹس بھی موجود تھے اور ان سب کی ادائیگی کردی گئی تھی جہاں تک production capacity کا تعلق ہے تو محض چند سالوں کے اندر اندر اسکی پیداواری گنجائش ایک ملین ٹن سالانہ سے بڑھا کر پانچ ملین ٹن سالانہ تک لے جانے کیلئے ساری فزیبلیٹی رپورٹ تیار تھی اور ایم او یو سائن ہونیوالے تھے کہ نجکاری کا عمل شروع کردیا گیا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ادارے بھی وہی ہیں انفراسٹرکچر اور دوسرے تمام Recources بھی وہی ہوتے ہیں مگر کچھ افراد اداروں کی تباہی وبربادی اور خود اپنی تذلیل کا باعث بن جاتے ہیں تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ انہی اداروں کو ترقی وبلندی کی اعلی منازل تک لے جاتے ہیں اگر ہم غور کریں توبات صرف اور صرف دیانت داری فرض شناسی اور بہترین قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کی موجودگی اور عدم موجودگی کی ہے کچھ افراد بلاشبہ ایسے ہوتے ہیں جن پر ادارے بھی رشک کرتے ہیں جنرل عبدالقیوم بھی ایک ایسا ہی نام ہے پاک آرمی pof اور پاکستان سٹیل ملز میں آپ نے کامیابیوں کی ایک قابل رشک تاریخ رقم کی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم 18 جنوری 1946 کو چکوال کے ایک گاؤں بادشاہان کے ایک مذہبی اور فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد محترم کا نام بشیر احمد ہے جوکہ قطب شاہی اعوام قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہیں نگران وزیراعظم معین قریشی کا ملٹری سیکرٹری مقرر کیا گیا تین ماہ تک آپ اس عہدے پر رہے معین قریشی آپکی دیانت داری فرض شناسی اور پیشہ ورانہ امور کی ادائیگی سے بہت متاثر ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو یہ مشورہ دے گئے کہ آپ اپنے ملٹری سیکرٹری کیلئے صرف اور صرف انہیں کا انتخاب کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے Gmo سے کوئی لسٹ منگوانے کی بجائے اس وقت DG(ISI) لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کے ذریعے Gmo پیغام بھجوا دیا کہ انکے ملٹری سیکرٹری جنرل عبدالقیوم ہی ہونگے‘ وہ تین سال تک اس عہدے پر کام کرنے کے بعد اپنی خواہش پر بے نظیر صاحبہ سے اجازت لیکر انفنٹری ڈویژن کی کمان کیلئے گوجرانوالہ چلے گئے اور انہیں انتہائی اعزاز کیساتھ وزیراعظم ہاؤس سبکدوش کیا گیا حکومت کی طرف سے انہیں اعلی فوجی خدمات کے اعزاز کے طور پر ہلال امتیاز (ملٹری) سے بھی نوازا گیا ہے۔ POF میں آپ کی انتظامی اور قائدانہ صلاحتیں کھل کر سامنے آئیں۔
ستمبر 1998 میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کی Recommendation پر اس وقت کے وزیراعظم جناب نواز شریف نے انہیں پاکستان آرڈی نینس فیکٹری کا چیرمین مقرر کیا۔ pof گویا ایک Cluster of industries ہے جہاں چودہ کے قریب فیکٹریز اور چھ ذیلی ادارے ہیں جو صبح وشام ملکی دفاعی ضروریات کا سامان تیار کررہے ہیں یہاں پر ایک گولی Battle سے لے کر ٹینک اور لڑاکا جہاز تک تیار ہوتے ہیں۔ جنرل عبدالقیوم نے اپنی موجودگی کے دوران بہترین کوالٹی کنٹرول اور یورپی امریکی اور Nato کے معیار کیمطابق اسلحہ میں جدت پیدا کی اور آئی ایس او 9001 ( iso-900) سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ موڈی انٹرنیشنل کے ریجنل ڈائریکٹر مسٹر ڈیوڈ ایمپری جب سرٹیفیکٹ کی فراہمی سے قبل pof میں آئے تو عالمی معیار اور کوالٹی کنٹرول کیمطابق اسلحہ کی تیاری سے انتہائی متاثر ہوئے اور کوالٹی کنٹرول کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے۔ انہوں نے کہا کہ pof میں کوالٹی کنٹرول کے نظام کا دنیا کی کسی بھی دفاعی صنعت سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور pof کا شمار دنیا کے چند بہترین دفاعی صنعتی اداروں میں ہوتا ہے۔ iso سرٹیفیکیٹ اعلی کوالٹی کنٹرول اور pof کا بہترین اور عالمی معیار کا دفاعی صنعتی ادارہ ہونے کا اعزاز جنرل عبدالقیوم کی نمایاں ترین کوشش کا حاصل اور ثمر تھا۔ جنرل صاحب سے قبل مختلف ادوار میں pof کے چیئرمین صاحبان بھی اس ادارے کی ترقی اور بہترین کارکردگی کیلئے اپنی پوری کوشش کرتے رہے اور کوشش پیہم کا ہی تسلسل تھا کہ جنرل صاحب کے دور میں 1999 او ر2008 کے دوران pof کی برآمدات میں 107 فیصد اضافہ ہوا۔ یہاں کی پوری تاریخ میں ٹرن اوور کبھی بھی پانچ یا ساڑھے پانچ ارب روپے سے زیادہ کا نہیں رہا تھا تاہم 2008 میں یہ ٹرن اوور آٹھ ارب روپے سے بھی تجاوز کرگیا۔ اسکے علاوہ اس ادارے کی طرف سے فوج کو چھ ارب روپے کا سازو سامان دیا یگا جس کی بین الاقوامی قیمت 9ابر روپے تھی۔
دفاعی ضروریات کی فراہمی کیساتھ ساتھ pof میں موجود تقریباً تیس ملا زمین اور وہاں کی تقریباً تین لاکھ سے زائد آبادی کیلئے بے شمار ترقیاتی اور فلاحی کام کروائے گئے جن کی فہرست قدرے طویل بھی ہے اور قابل ستائش بھی اور اسکے پیچھے قوت محرک حضور نبی کریمﷺ کی یہ حدیث تھی کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کیلئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہیں۔‘‘
اب ہم سٹیل ملز کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ دراصل پاکستان اور روس کے درمیان جنوری 1971ء میں کراچی میں سٹیل ملز کے قیام کیلئے ایک سمجھوتے پر دستخط ہوئے اس کا سنگ بنیاد 30 دسمبر 1973ء کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔ 14 اگست 1981ء کو پاکستان سٹیل پیدا کرنیوالے چند ممالک میں شامل ہو گیا۔ رسمی تقریب 15 جنوری 1985ء کو صدر ضیاء الحق کی زیر صدارت ہوئی۔ اس وقت ملز کی پیداواری گنجائش 1.1 ملین ٹن سالانہ تھی جبکہ اس وقت لاگت کا تخمینہ 2.2 ارب ڈالر تھا۔ ابتداء میں تو چند سال قدرے منافع حاصل ہوا تاہم بعد میں بددیانت اور نااہل قیادت کے باعث اس ادارے کو واپڈا‘ پی آئی اے اور ریلوے کی طرح خسارے کی نذر ہونا پڑا۔ کئی چیئرمین آتے رہے تاہم چونکہ ہمارا موضوع بین السطور سٹیل ملز کیساتھ ساتھ جنرل عبدالقیوم کی POF اور سٹیل ملز میں خدمات کے متعلق بھی ہے تو بات ان کے پیش رو کرنل افضل سے شروع کرتے ہیں۔
حقیقت میں لیفٹیننٹ کرنل افضل پاکستان سٹیل ملز میں نواز شریف صاحب کے دورِ حکومت میں جنرل منیجر سیکورٹی تعینات تھے چونکہ کرنل صاحب صدر مشرف کے بیج میٹ تھے تو نواز شریف صاحب نے انکی سفارش پر کرنل افضل کو سٹیل ملز میں MD مقرر کر دیا۔ بعد ازاں جب صدر مشرف نے ٹیک اوور کیا تو انہوں نے کرنل افضل کو سٹیل ملز کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ (جاری ہے)

Voice of America

’پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ انتظامی اخراجات کی نذر ہو جائے گا‘

27.08.09

’اگر امداد کو ایٹمی اسلحے کی نگرانی سے نتھی کی گئی تو یہ بات پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہو گی‘

پاکستان کے وزیرِ خزانہ  شوکت ترین نے خدشہ  ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا نصف حصہ انتظامی اخراجات میں ضائع ہو جائے گا۔
انھوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے جب پاکستان بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے رقوم حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ادارے اس بارے میں جاننے کے خواہش مند ہیں کہ امداد کہاں اور کیسے خرچ کی جائے گی۔
اس ہفتے ترکی میں عطیہ دہندگان ممالک کے اجلاس میں پاکستان پانچ ارب 70 کروڑ روپے کا قرض حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا، باوجود اس کے کہ اقوامِ متحدہ نے درخواست کی تھی کہ پاکستان کی مشکلات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
پاکستان میں طالبان کی طرف سے جاری بغاوت کے پیشِ نظر امریکہ پاکستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے۔
شوکت ترین نے اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے جس امداد کا وعدہ کیا ہے اس کا نصف انتظامی اخراجات پر صرف ہونے کا امکان ہے۔ انھوں نےکہا کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی امداد  کا بھرپور استعمال ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے اداروں کی بجائے پاکستانی ایجنسیوں کی وساطت سے رقوم فراہم کرے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں کل امداد کا صرف نصف حصہ ملتا ہے، جب کہ بقیہ انتظامی امور کی مد میں چلا جاتا ہے۔
کچھ پاکستانی عہدے داروں نے یہ تشویش ظاہر کی ہے کہ امریکہ غیر ملکی ترقیات سے متعلق ادارہ USAID پاکستان میں بڑا ڈھانچا تشکیل دے گا جس میں غیر ملکی ماہرین کو خطیر تنخواہیں دی جائیں گی۔
انھیں فکر لاحق ہے کہ عملے اور انتظامی امور سے متعلق دوسری ادائیگیاں ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات بڑھا دیں گی۔
شوکت ترین نے مزید کہا کہ پاکستان اس ترقیاتی امداد کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعلقات سے منسلک  کرنے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرے گا۔  انھوں نے کہا کہ اگر امداد کو ایٹمی اسلحے کی نگرانی سے نتھی کی گئی تو یہ بات پاکستان کے لیے ’ناقابلِ قبول‘ ہو گی۔
امریکی امداد کا بڑا مقصد پاکستانی عوام میں امریکہ کی ساکھ بہتر بنانا ہے، کیوں کہ حالیہ جائزوں کے مطابق پاکستانی عوام میں امریکہ کے بارے میں زیادہ اچھے جذبات نہیں پائے جاتے۔
تاہم اخبار کے مطابق یہ بات ممکن نظر نہیں آتی کہ امریکہ پاکستان کے لیے امداد کے طریقہٴ کار میں کوئی تبدیلی لائے گا۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح امریکہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی اکٹھی کی ہوئی رقوم غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔

http://newsurdu.net/

آصف علی زرداری بتائیں کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔عمران خان

September 1st, 2009

لاہور۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے معاشی‘ عدالتی اور تعلیمی انصاف کے لئے عید کے بعد ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جائے اگر پھر جیالے اور متوالے ججز آگئے تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نہیں بلکہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور ہم نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ گزشتہ روز نیو چوبرجی میں تحریک انصاف یوتھ ونگ لاہور زیراہتما را فطارپارٹی سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عمرسرفراز چیمہ، نائب صدر اعجاز چوہدری‘ لاہور کے صدر میاں محمود الرشید‘ چوہدر ی یاسین، سہیل اآصف ، اسامہ رانا ، یوتھ ونگ لاہور کے صدر ڈاکٹر عاطف الدین ، عقیل احمد ، ندیم چوہدری، احمدوسیم ، وقار خان، فہیم چوہدری ، محمد اعظم دانیال ، ذوالفقار حیدر،فواد رسول، خواجہ ذیشان ، راجہ عابد یونس ،نویداحمد، صدیق خان ،اشتیاق ملک ، رانا اخترحسین سمیت زونل صدور اور کثیر تعداد میں میں کارکنان موجود تھے۔ عمران خان نے کہا کہ پی سی او ججز کو عدالتوں سے نکالنے کا فیصلہ خوش آئند تھا اور اس سے عدلیہ آزاد ہوئی ہے مگر اب میرٹ کے مطابق ججز کی تقرری نہ کی گئی تو عدلیہ کی آزادی کیلئے کی جانے والی جدوجہد ضائع ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری کا اختیار صدر‘ وزیراعظم‘ گورنراور وزراء اعلیٰ کے پاس نہیں بلکہ اس کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دی جائے جو ججز کی تقرری کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ججز کی میرٹ پر تقرری کیلئے ہر فورم پر جدوجہد کریں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ججز کی تقرری میرٹ کے مطابق ہو۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پاکستانی قوم کو مہنگائی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے اور یہ عوام کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے حکومت کر رہے ہیں اور عوام کے خون کو نچوڑ کا ان پر ٹیکسز کی بارش کی جا رہی ہے‘ آصف علی زرداری بتائیں کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران ہر سال ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی چالیس فیصد رقم غیر ملکی قرضوں کی قسطوں میں ادا کردیتے ہیں اور یہ قرضے عوام پر زنجیر کی طرح پڑھے ہوئے ہیں‘ ایوان صدر کا روزانہ خرچہ دس لاکھ ‘ وزیراعظم کے سالانہ غیر ملکی دوروں کیلئے 124کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیںجبکہ 12ارب روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدی گئی ہیں اور ساری قیمت ہم ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم آج بھیڑبکریاں بن چکی ہیں اور اب ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی سمیت سب کی قیمتیں بڑھیں گی اور رینٹل پاور سے کمیشن لینے کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ حکمران چند ڈالروں کی خاطر اپنے لوگوں کو مروا رہے ہیں اور ہم نے فوجی آپریشن کرکے طالبان کو جنم دیا ہے اور جب تک امریکہ افغانستان میں موجو دہے پاکستان میں کبھی بھی امن نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ یہاں حالات خراب رکھے۔اس موقع پر دیگر نے بھی خطاب کیا

رینٹل بجلی گھروں میں کرپشن، سٹیل ملز وچینی سکینڈل، پی آئی اے میں بدعنوانیوں سمیت تمام ایشوز کو قومی اسمبلی کے اندر وباہر اٹھائیں گے ۔مسلم لیگ نون

September 1st, 2009 ·

٭۔ ۔ ۔ مسلم لیگ (ن) کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس 7ستمبر کو مری میں ہوگا جس میں پارٹی کی تنظیم سازی اور آئندہ لائحہ عمل بارے حکمت عملی طے کی جائے گی

٭۔ ۔ ۔ پارٹی کی تنظیم سازی کے بعد اکتوبر میں انتخابات ہوں گے، اجلاس میں نوازشریف کو پارٹی کا صدر بنانے سے متعلق بھی فیصلہ کیا جائے گا

٭۔ ۔ ۔ مسلم لیگ (ن) میثاق جمہوریت پر عملدرآمد چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت ان ہاتھوں میں ہے جنہیں میثاق جمہوریت کا کچھ علم نہیں، مسلم لیگ (ن) کے خلاف کردار کشی کی مہم جاری رہی تو دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں

٭۔ ۔ ۔ رینٹل بجلی گھروں میں کرپشن، سٹیل ملز وچینی سکینڈل، پی آئی اے میں بدعنوانیوں سمیت تمام ایشوز کو قومی اسمبلی کے اندر وباہر اٹھائیں گے جو ہمارا آئینی حق ہے، پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے

۔۔۔۔۔۔ احسن اقبال کی اجلاس کے بعد بریفنگ

٭۔ ۔ ۔ پرویز مشرف پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ نہ چلایا گیا تو عوام مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ ظفر اقبال جھگڑا

لاہور۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس 7ستمبر کو مری بھوربن میں منعقد ہوگا جس میں پارٹی کی تنظیم سازی، پارٹی انتخابات، موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکمت عملی ، مڈٹرم انتخابات، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، رینٹل بجلی گھروں، سٹیل ملز سکینڈل، چینی سکینڈل اور مسلم لیگ (ن) کے قائد وقیادت سمیت مختلف امور پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) افہام وتفہیم کی سیاست کو آگے بڑھائے گی لیکن اسے مسلم لیگ (ن) کی کمزور ی سمجھا جائے اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی جانب سے میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کی کردار کشی کی مہم ترک نہ کی گئی تو مسلم لیگ (ن) بھی بھرپور جواب دے گی۔ یہ فیصلے مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کمیٹی کے اجلاس میں کئے گئے۔ اجلاس کی صدارت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے کی۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فی الفور واپس لے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کے اندر اور باہر قومی ایشوز بالخصوص پروزیر مشرف کے آٹیکل 6کے تحت ٹرائل، رینٹل پاور پلانٹس پر عوامی تشویش ، سٹیل ملز اور چینی سکینڈل وپی آئی اے میں بدعنوانیوں جیسے معاملات کو بے نقاب کرتی رہے گی۔ اجلاس میں پارٹی کے صدر میاں شہبازشریف ، ٹاسک فورس کے سربراہ سرتاج عزیز، سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا، سرانجام خان، راجہ ظفر الحق، خواجہ سعد رفیق ، احسن اقبال، اسحاق ڈار، راجہ اشفاق سرور، حنیف عباسی، سینیٹر پرویز رشید، حمزہ شہبازشریف نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف جاری کردار کشی کی مہم شرمناک ہے۔ تاہم انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کی خواہاں ہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور خود انہوں نے دستخط کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعض قوتیں جمہوریت کی بساط کو ایک بار پھر لپیٹنے کیلئے کوشاں ہیں تاہم مسلم لیگ (ن) ایسی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انہوںنے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںا ضافہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ عوام پہلے ہی مہنگائی میں پسے ہوئے ہیں وہ مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے اس لئے پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔ میاں نوازشریف نے کہاکہ پارٹی کی تنظیم سازی کی مہم بھرپور جوش وجذبہ سے چلائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی عید کے بعد پنجاب کے علاوہ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے دورے کریں گے تاکہ گراس روٹ تک پارٹی کو منظم کیا جاسکے۔ اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے بتایا کہ اجلاس میں ٹاسک فورس کے چیئرمین سرتاج عزیز کی جانب سے پارٹی کی تنظیم سازی کیلئے سفارشات پر غور اور فیصلہ کیا گیا کہ تنظیم سازی مہم کو مؤثر بنانے کیلئے پارٹی کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس 7ستمبر کو مری بھوربن میں منعقد ہوگا جس میں چاروں صوبوں سے پارٹی کے ضلعی اور صوبائی صدور وسیکرٹریوں کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ بھی شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کو پارٹی کا صدر منتخب کرنے کیلئے امیدوار بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو یونین کونسل کی سطح تک منظم کیا جائے گا اور اس کے ہر سطح پر انتخابات اکتوبر میں کروائے جائیں گے۔ احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) محاذ آرائی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور ہم ملک کو درپیش بحرانوں کا حل بردباری اور افہام وتفہیم کے ساتھ چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف چاہتے ہیں کہ ہم ہر ایک کے مینڈیٹ کا احترام کریں جس کیلئے انہوں نے محترمہ کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مفاہمت کی پالیسی کو ہماری کمزوری سمجھا گیا جس کے لئے ہمیں مخالفین سے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سننے پڑے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ن) 17ویں ترمیم کے خاتمہ، جنرل (ر) پرویز مشرف کے آرٹیکل 6کے تحت ٹرائل کے مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ انہوں نے کہا کہ چینی کے بحران نے پہلے ہی عوام کو پریشان کررکھا تھا کہ حکومت نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مہنگائی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فی الفور واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اپوزیشن لیڈر کا کردار بھرپور انداز میں ادا کررہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چینی سکینڈل، سٹیل ملز میں گھپلوں اور پی آئی اے میں بدعنوانیوں کی تحقیقات کرکے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ رینٹل بجلی گھروں پر عوام کو شدید تشویش اور بے چینی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس معاملہ کو عوامیا ور قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اٹھائے گی تاہم اسے محاذ ارائی تصور نہ کیا جائے کیونکہ حکومت کی کرپشن ، بدعنوانیوں اور کوتاہیوں کو منظر عام پر لانا ہمارا آئینی اور قومی فریضہ ہے۔ حکومت کو اسے ویلکم کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر ملکی سیاست کو ایک بار پھر 90کی دہائی میں لے جانا چاہتے ہیں لیکن ہم محاذ آرائی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تاہم اگر یکطرفہ طور پر مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کی کردار کسی جاری رکھی گئی تو ہم دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ہم ملک میں میثاق جمہوریت پر اس کی سپرٹ کے ساتھ عملدرآمد چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی جمہوریت پر شب خون نہ مارسکے لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت ایسے گروپ کے ہاتھ آغئی ہے جو میثاق جمہوریت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی اس کی تشکیل میں شریک تھا۔ ایک سوال کے جواب میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا نے کہا کہ اگر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ نہ چلایا گیا تو عوام مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ قومی ایشوز کی نشاندہی کرنا ہمارا آئینی ہے اگر ہم ان ایشوز پر خاموش رہے تو قوم ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم گلگت اور تربت کو خودمختاری دینے کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس معاملہ کو پہلے قومی اسمبلی یں لایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بالخصوص صدر اہم فیصلے بروقت نہیں کرتے بلکہ وہ یہ فیصلے اس وقت کرتے ہیں جب ان پر دباؤ آتا ہے

عالمی بینک نے پاکستان کے لئے پروجیکٹ فنانسنگ پالیسی ختم کر دی ‘ 20 منصوبے ختم ہو گئے

September 1st, 2009

اسلام آباد ۔ عالمی بینک نے پاکستان کے لئے منصوبوں کی فنڈنگ کی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے 20 منصوبے ختم کر دیئے گئے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے پاکستان کے لئے فنڈنگ کے حوالے سے پالیسی میں بنیادی تبدیلی لائی ہے جس کے تحت عالمی بینک اب ترقیاتی منصوبوں میں فنڈ کی فراہمی کی بجائے بجٹ سپورٹ کے لئے فنڈز فراہم کرے گا ۔ جس کے بعد 20 سے زائد ترقیاتی منصوبوں کی فنانسنگ بند کر دی گئی ہے ۔ جس کے بعد یہ منصوبے ختم کر دیئے گئے ہیں ۔ انہوں نے گزشتہ تین سالوں کے دوران فراہم کئے گئے قرضوں پر پاکستان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی بینک نے اس دوران 3 ارب ڈالر کے قرضے کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا جس میں سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر فراہم کئے ہیں ۔

سرکاری و ملٹری بیور و کریسی اور سیاستدان

clip_image001

 

پاکستان کی تاریخ جہاں عوام کی بے پناہ قربانیوں اور پاکستان سے بے لوث محبت سے بھری پڑی ہے وہاں حکمرانوں کی عوام دشمنی ذاتی مفادات میں گھٹیا پن کا مظاہرہ اختیارات کے ناجائز استعمال 'عوام کا استحصال' پاکستان کو دولخت کرنے اور سرکاری سول و ملٹری بیورو کریسی کا اپنی اصل ذمہ داریوں کو چھوڑ کر ریاستی معاملات میں مداخلت سے بھی داغدار ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے مشہور استاد اور پاکستان کے مقبول ترین تاریخ دان جن کی کتب ایف اے ' بی اے اور ایم اے کی سطح پر یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ عبد اللہ ملک نے پی پی پی کی پہلی حکومت یعنی محترمہ کی وزارت عظمیٰ1988 ء میں رائٹرز ایسوسی ایشن انڈیا کی دعوت پر دہلی کا دور ہ کیا اور اپنے دورے کے تاثرات و تجربات کا ذکر کرتے ہوئے استاد الاساتذہ عبد اللہ ملک اپنے کالم میں تحریر فرماتے ہیں کہ پاکستان کے سرکاری وفد میں سیاستدان 'ممبران پارلیمنٹ اور دانشور حضرات موجود تھے۔ دہلی ائیرپورٹ پر اترے تو محکمہ تعلیم کے افسران نے استقبال کیا اور ہمیں سیدھے دہلی کی سرکاری لائبریری میں لے گئے عصرانہ کے خاتمے پر ہم نے دہلی کی سرکاری لائبریری کا جائزہ لینا شروع کیا تو ہر دوسرے خانہ کتب میں قائدین ہندوستان کے بارے میں تنقیدی کتب نظر آئیں حتیٰ کہ ایک خانہ کتب صرف اور صرف گاندھی خاندان کی سیاست پر تنقید کا تھا میرے لئے یہ بات باعث حیرانی نہیں بلکہ خوش آئند تھی کہ لوگوں کو اپنے قائدین کے حقیقی کردار کا علم ہوتا ہوگا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہندوستان کے میزبان تعلیمی افسر سے پوچھ لیا کہ حکومتی لائبریری میں بانیان ہندوستان پر تنقیدی کتب کے کیا معنی ہیں تو جواب ملا کہ پورے ہندوستان میں ہر سکول ' کالج اور یونیورسٹی میں سیاسی قائد ین پر تنقیدی کتب لائبریری میں موجود ہوتی ہیں۔ ہم ہیں کہ پاکستان بنانے والے شیر بنگال اور قائداعظم کے ساتھیوں کے بارے میں ذرا برابر بھی بات سننا ناپسند کرتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ بھی دنیا کے ہر ملک کے حکمران یا سیاست دان کو جائز عزت دی جاتی ہے اور اس کے مقام کا احترام لازم ہے ہم اپنے قائدین کو ولیکا درجہ دیتے ہیں اور دوسری اقوام ان کی کوتاہیوں یا غلطیوں کو معاف کرنے پر تیار نہ ہوکر اور زیادہ اصلاح اور احتساب کرکے بہتر انداز میں عوام کی خدمت پر مجبور کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قیام کی خوشی تو سنائی جاتی ہے لیکن ہر سیاسی قائد کے علاوہ اس کی پارٹی کے آخری ووٹرز اور کارکن کو علم ہوتا ہے کہ اصل حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ سیاسی حکومت صرف شوپیس ہے ۔ اصل حکومت فوجی ہوتی ہے جس میں صرف ایک فرد پندرہ ' بیس کور کمانڈر اور ٹرپل ون بریگیڈ کے ذریعے قانون ' آئین کو پائوں کے نیچے روندتا ہے اور یہ شرمناک حقیقت بھی ہے کہ آمر کے ساتھ 95 فیصد عوام کا استحصال کرنے والے نام نہاد سیاستدان ہوتے ہیں اس سے بھی زیادہ بے بسی یہ ہے کہ گزشتہ 62 سالوں سے ووٹرز اور سیاسی کارکن فوجی یونٹوں اور پلاٹونوں کے ملازمین کی طرح ان غاصب اور عوام دشمن سیاستدانوں کے چنگل سے نکلنے میں ناکام ہیں۔ جوڈیشری ' جنرلز ' جرنلسٹ ' سول بیورو کریسی ' تاجر ' سرمایہ دار ' جاگیردار ' نسلی ' صوبائی ' علاقائی اور فرقہ پرستی کے خول سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں بلکہ گزشتہ 62 سالوں میں جنرلز اور جرنلسٹ ' جاگیردار اور سرمایہ دار نے حکومتیں بنوانے اور گرانے ' مارشل لاء کی مخالفت اور حمایت میں نسل ' صوبہ ' علاقہ اور فرقہ پرستی کے زیر اثر پاکستان کو کمزور کرنے میں اہم فیصلے کیے اور کروائے جب سے آمر مشرف کو دفعہ 6 کے تحت جس کی شقوں کے تحت ساتھیوں کو بھی سزائے موت دی جاسکتی ہے مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے اور قوم بھی اب مکمل طور پر آمریت اور آمریت کے ساتھیوں ' اتحادیوں اور فوائد حاصل کرنے والوں کے چہروں کو پہچان چکی ہے۔ بے مقصد بحثوں کو شروع کروا دیا گیا ہے۔ بالخصوص مخصوص ٹی وی چینلز اور اخبارات جو مشرف آمریت میں فوائد حاصل کرنے میں سب سے آگے تھے انہوں نے 17 سال پرانے کراچی آپریشن کے حوالے سے لاحال بحث شروع کروا کر (ن) لیگ اور (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کو آپس میں لڑانے کی سازش شروع کی ہوئی ہے جس سے مشرف کے ٹرائل کی بجائے نفرتوں کی ایک بار پھر بھرمار کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو ایم کیو ایم میں تبدیل کرنے پر اور ایم کیو ایم کے فاشزم پر میں نے اس کا نام مہاجر قتل مہم رکھا اور کالم لکھے لیکن جب الطاف حسین نے متحدہ قومی موومنٹ کے ذریعے پورے ملک میں اپنی جماعت کو قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ لاہور ' کوئٹہ ' اسلام آباد ' کراچی میں آباد مختلف قومیتوں اور نسلوں کے لوگوں کو آپس میں بھائی چارہ قائم کرنے کا موقع ملا تو پھر اوصاف میں اداریوں اور کالموں کے ذریعے زلزلہ زدگان کی بے لوث خدمت اور پرامن سیاست کو سراہا بھی گیا۔ مشرف آمریت کا ساتھ دینے اور فردوس عاشق اعوان جو روزانہ مشرف کے قصیدے پڑھتی تھیں اور بی بی پر تنقید کرتی تھی ۔ جنرل (ر) حامد نواز وفاقی وزیر قانون نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ حنا ربانی کھر پی پی پی کی وزیر مملکت ہیں۔ مولانا فضل الرحمن گروپ آمرانہ دور کی طرح جمہوری دور میں بھی وزارتی گروپ ہے۔ صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنانے کا واضح مطلب (ن) لیگ اور ایم کیو ایم میں دوری پیدا کرنا مقصد ہے۔ جہاں تک 1992 ء کے آپریشن کا تعلق ہے اور وزیر اعظم کو بے خبر رکھنے کا اعلان اور آپریشن کے ذمہ داران اور اصل حکمرانوں جنرل (ر) درانی ' جنرل (ر) حمید گل ' بریگیڈیئر (ر) امتیاز کی سچائیوں کی بات ہے ہم تو وہ بدقسمت ہیں کہ قائداعظم کی سازشی موت ' فاطمہ جناح کی ہم سے جدائی ' لیاقت خان کا قتل اور ان کی تحقیقاتی فائل کے ہیلی کاپٹر کا جہلم کے پہاڑیوں میں گرکر تباہ ہونا ' لیاقت باغ فائرنگ کیس ' بلوچستان میں سویلین اور فوجی آپریشنوں کے علاوہ سوات ' مالاکنڈ اور لال مسجد میں فوجی آپریشن ' عمر اصغر خان کی جعلی خودکشی ' بی بی کی شہادت کی فائلوں کا گم ہو جانا ' بھٹو کے عدالتی قتل کے اہم کاغذات غائب ہو جانا ' عدالت عالیہ کے درجنوں پسند ناپسند کے فیصلے ' سول بیور و کریسی کا ایک حکومت کے ساتھ ناجائز تعاون اور مشاورت اور اور حکومت کے ساتھ جائز اور قانونی عدم تعاون ' آئی ایس آئی ' ایم آئی اور آئی بی کے افسران اور اہلکاران کا دوران سروس بڑے بڑے کاروباری اداروں میں حصہ داری ' ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی جماعتوں میں شرکت کرنا اور وزارتیں حاصل کرلینا اور بے وقت جمہوری حکومت کے خلاف نئے محاذ کا آغاز کروانا افسوناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔
جنرل ایوب ' جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائوں کو ایک خاص نسل ' علاقہ اور مخصوص قومیتوں اور برادیوں نے مدد فراہم کی ' اسی طرح جنرل (ر) مشرف کے مارشل لاء کو ماضی کے انہی مفاد پرست گروپوں کے علاوہ ایم کیو ایم نے بھی نسل اور زبان کی بنیاد پر حمایت کی۔ انکشافات تو سیاستدانوں کا کھیل ہوتا تھا جس سے عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاتی تھیں اب سرکاری افسران جنہوں نے اس ملک کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو ایک دوسرے کی دشمنی میں قتل کروایا ' اسلامی نظام کے نام پر اپاہج بنوایا اور نوجوانوں کو جہاد کراتے کراتے خود جہازوں کے مالک بن بیٹھے۔ پاکستان کا ہر سیاست دان ' سول و ملٹری بیورو کریٹ ' ججز ' جنرلز اور جرنلسٹ ' جاگیردار ' سرمایہ دار رنگ و نسل اور فرقہ سے بالاتر ہوکر آج طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ ہی خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر عوام کو سچے دل سے حلف دے کر پاکستان کو مضبوط و مستحکم بنانے کا عہد کرکے آمریت کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کا وعدہ کرکے ارض پاک کو جمہوری فلاحی مملکت بناکر آئندہ کی نسلوں کے سامنے تاحیات سرخرو ہوسکتے ہیں۔

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post