DCR 5-a

Posted by Muhammad Musa Soomro Saturday, September 5, 2009


آخری وقت اشاعت: Saturday, 5 september, 2009, 16:39 GMT 21:39 PST


شوگر مافیا کی جے ہو‘

علی سلمان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، لاہور



پاکستان کے عوام کو چینی کے ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جس کا کوئی بھی فریق ذمہ دار نہیں ہے۔ جس سے بات کرو وہ اپنے دلائل کی پٹاری سے ایک ایسا پھنیر ناگ برآمد کرتا ہے کہ سوالی کی زبان گنگ ہو کر رہ جاتی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ شوگر مافیا پچیس ارب روپے کا خالص منافع کما چکا ہے لیکن انہوں نے کھل کر اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ یہ شوگر مافیا ہے کون؟

میرا تو پہلا شک چینی کے سودا گروں (شوگر ڈیلروں) پہ گیا کیونکہ ان کے نام کے ساتھ ڈیلر لگتا ہے اور ہر ڈیلر ہر وقت اپنے حق میں اچھی ڈیل تلاش کرتا ہے۔

شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر رانا ایوب نے کہا کہ یہ تو ان کا بدترین وقت ہے کیونکہ وہ دس ہزار ڈیلر دو لاکھ ٹن چینی مہنگے داموں مل مالکان سے خرید چکے ہیں اور نئے کم نرخوں پر فروخت سے ان کو کروڑوں کا نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا ’شوگر ملز کے مالک جس قمیت پر چینی دیتے ہیں ڈیلر بیچارہ ترسیل کے اخراجات کی کٹوتی کے بعد انتہائی معمولی منافع پر چینی صارف کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ قمیت میں کمی بیشی کا ذمہ دار تو مل مالک ہے۔‘

مجھے پہلے ہی شک تھا کہ ملوں کے مالکان ہی شوگر مافیا وغیرہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ساٹھ فیصد شوگر ملیں ایسے سیاسی خانوادوں کی ہیں جو یا تو حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں بیٹھے ہیں۔

سادہ سی بات ہے اس برس گنا اوسطاً ایک سو بیس روپے من کے لحاظ سے ملوں کو ملا تو ظاہر ہے چینی کی قیمت بھی دوگنی ہونی چاہیے

سکندر ایم خان، چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن

شوگر مل مالکان کہتے ہیں کہ چینی کی قمیت کا براہ راست تعلق گنے کی قمیت سے ہے۔گنا سنہ دو ہزار آٹھ میں شوگر ملوں کو جب ساٹھ روپے من کے لحاظ سے سپلائی ہوا تو چینی کی قیمت تیس روپے کلو تھی۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چئرمین سکندر ایم خان نے کہا کہ سادہ سی بات ہے اس برس گنا اوسطاً ایک سو بیس روپے من کے لحاظ سے ملوں کو ملا تو ظاہر ہے چینی کی قیمت بھی دوگنی ہونی چاہیے لیکن انہوں نے کہا کہ شوگر ملیں پھر بھی صرف پچاس پیسے کے قلیل منافع پر پینتالیس روپے کلو کے حساب سے چینی حکومت کو دینے کو تیار ہیں۔

مل مالکان کا جواب تو دو جمع دو کی طرح صاف لگا کہ ’بھئی گنا مہنگا ہوگا تو چینی تو مہنگی ہو ہی جائے گی‘، یعنی گنا مہنگا بیچنے والا کاشتکار ذمہ دار ہوسکتا ہے۔

جاگیردار، زمیندار طبقہ مجھے شوگر مافیا کے خانے میں فٹ ہوتا نظر آنے لگا کیونکہ پارلیمان میں بیٹھے چند کے سوا تقریباً تمام فیصلہ ساز قانون ساز زمیندار پس منظر رکھتے ہیں۔

پاکستان میں زیادہ تر گنا صوبہ سندھ میں کاشت ہوتا ہے۔ بدین اور ٹنڈو محمد خان کے کاشتکار بشیر نظامانی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ زیادہ تر کاشتکاروں نے تو گنا اسی روپے فی من کے سرکاری نرخ پر ہی فروخت کیا ہے اور ایسے کسانوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہوگی جنہوں نے زیادہ نرخ لیے۔ انہوں نے کہا کہ ’گنے کے کاشتکار سے زیادہ مظلوم تو کوئی کسان ہے ہی نہیں۔ اس کا گنا ٹرالیوں پر لدا ملوں کے باہر سوکھتا رہتا ہے اور جب وصول ہوجاتا ہے تو پھر ادائیگی کئی مہینوں بلکہ برسوں میں ہوتی ہے۔‘

زیادہ تر کاشتکاروں نے تو گنا اسی روپے فی من کے سرکاری نرخ پر ہی فروخت کیا ہے اور ایسے کسانوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہوگی جنہوں نے زیادہ نرخ لیے

بشیر نظامانی، کاشتکار

انہوں نے کہا کہ اگر یہ اربوں روپے کا منافع کاشتکار کو ملا ہے تو پھر اگلے برس کے لیے گنے کی کاشت کم کیوں ہوگئی ہے اور کسان اتنی منافع بخش فصل چھوڑ کر دوسری فصلوں کی طرف کیوں جا رہا ہے؟

ان کے سوال نے لاجواب کردیا تو سوچا کہ جب چینی کا تیرہ لاکھ ٹن کا سٹاک موجود ہے جو ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر بھی قلت کا رونا کیوں رویا جا رہا ہے؟ یہ ضرور ذخیرہ اندوزی کا معاملہ ہوگا اور اس کی ذمہ داری لازماً حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ اس نے کارروائی کیوں نہیں کی؟

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے چئرمین کا کہنا ہے کہ یہ ذخیرہ مل مالکان کے پاس موجود ہے وہ اسے مارکیٹ میں نہیں لا رہے۔ مل مالکان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ سٹاک کسی خفیہ مقام پر نہیں ہے بلکہ بنک کے پاس گروی ہے حکومت جب چاہے اسے نکال سکتی ہے۔

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار منظور وٹو نے چینی ملوں کے گوداموں سے اٹھانے کے لیے اس کی ایکس مل قیمت انچاس روپے پچہتر پیسے مقرر کی تھی جسے شوگر مافیا کی جیت قرار دیا گیا تو وزیر اعظم نےقیمت پینتالیس روپے فی کلو مقرر کردی۔

لاہور کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اس قیمت کو بھی زیادہ قرار دیا اور اب قیمت چالیس روپے فی کلو مقرر کردی گئی ہے۔

وفاقی وزیر منظور وٹو نے کہا ہے کہ اب وہ سستی چینی یوٹیلٹی سٹور پر فراہم نہیں کر سکتے اور عدالت نے قمیت کم کی ہے تو وہ اس کی فروخت بھی کرے۔

پنجاب حکومت کے چھاپوں نے صورتحال کو بگاڑا ہے اور ملک میں چینی کا وافر ذخیرہ ہونے کے باوجود قلت کا تاثر پیدا ہوا اور مارکیٹ بگڑ گئی

منظور وٹو، وفاقی وزیر صنعت و پیدوار

ایگری فورم کے چئرمین ابراہیم مغل کہتے ہیں کہ جب گندم کی قلت ہوئی تو ضلع بندی ہوگئی تھی، راستوں پر پولیس بٹھا دی گئی اور جس کسان کے گھر سے دس من گندم بھی نکلی وہ قبضے میں لے لی گئی تھی۔

ان کہنا ہے کہ ’اب تو صرف 80 شوگر ملوں کا معاملہ ہے جن سے چینی کی برآمدگی نسبتاً بہت ہی آسان ہے تو حکومت کیوں نہیں کر لیتی؟

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ وہ چھاپے بھی ماریں گے اور چینی برآمد بھی کریں گے لیکن انہیں کچھ وقت دیا جائے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیدوار منظور وٹو کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے چھاپوں نے صورتحال کو بگاڑا ہے اور ملک میں چینی کا وافر ذخیرہ ہونے کے باوجود قلت کا تاثر پیدا ہوا اور مارکیٹ بگڑ گئی۔

اس طرح تمام فریقین سے بات مکمل ہوئی اور نتیجہ صفر ہے۔ یہی نتیجہ گذشتہ چند ہفتوں سے ہر مقامی نیوز چینل کے ٹی وی مذاکروں میں نکل رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب سب کے دلائل درست تو پھر غلط کون ہے؟ لگتا ہے کہ عام صارف نے اب اس میں اپنا دماغ کھپانے کی ناکام کوشش کے بعد خود کو ہی درست کرلیا ہے اور چینی کھانا کم کردی ہے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چینی کی ماہانہ کھپت میں پچاس ہزار ٹن کی کمی ہوگئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ چینی کا زیادہ استعمال صحت مندانہ رجحان نہیں ہے تو کیا پھر یہ کہنے میں کوئی حرج ہے کہ ’شوگر مافیا کی جے ہو‘۔

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post